شاکنگ فوٹیج: پرامن مظاہرین کو پاکستان میں ٹی ایل پی احتجاج کے دوران نشانہ بنایا گیا
پاکستان بھر میں احتجاج پھوٹ پڑا جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان سڑکوں پر نکلے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیل کے بارے میں متنازع بیان دیا۔ صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی لاہور میں مظاہرے کے دوران زخمی ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ پرامن مظاہرین پر پنجاب پولیس نے فائرنگ کی، جس سے ملک بھر میں عوامی غصہ بڑھ گیا۔
واقعات کا سلسلہ
احتجاجات اس وقت شروع ہوئے جب شہباز شریف نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیان دیا، جسے مذہبی جماعتوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور عوام نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مزید غصہ اس وقت پیدا ہوا جب وزیراعظم نے مبینہ طور پر علامہ اقبال کی ایک آیت کی غلط تشریح کی، جسے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے درست کیا۔ ٹی ایل پی نے ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا، جس میں پاکستان کی نظریاتی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کا دعویٰ کیا گیا۔
پہلے دن لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں ہزاروں افراد پرامن طور پر سڑکوں پر نکلے۔ دوسرے دن جب پنجاب پولیس نے مبینہ طور پر بغیر ہتھیار والے شہریوں پر فائرنگ کی تو جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ شاہدین نے تصدیق کی کہ بہت سے مظاہرین پرامن مارچ میں حصہ لے رہے تھے اور ہتھیار نہیں رکھے تھے۔
پولیس فائرنگ کی ویڈیو ثبوت
ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ مظاہرین پرامن طور پر نعرے لگا رہے تھے جب پولیس نے براہ راست فائرنگ کی۔ کئی آزاد ذرائع نے ویڈیوز کی تصدیق کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موقع پر یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں پولیس موجود تھی۔
یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہیں، اور #TLPProtests اور #StandWithSaadRizvi ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
زخمیوں اور سعد رضوی کی حالت
رپورٹ کے مطابق سعد رضوی کو تین گولیاں لگی ہیں اور انہیں فوری طور پر لاہور کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا۔ طبی رپورٹوں کے مطابق ان کی حالت تشویشناک لیکن مستحکم ہے۔ شاہدین کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران کئی دیگر مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔ پنجاب حکومت نے ابھی تک مکمل زخمیوں کی رپورٹ جاری نہیں کی۔
ان کی حالت کے اپ ڈیٹس کے لیے سعد رضوی اسپتال اپ ڈیٹس ملاحظہ کریں۔
حکومت اور پنجاب پولیس کا مؤقف
پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ پولیس قانون و نظم قائم رکھنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں، حزب اختلاف کے رہنماؤں اور قانونی ماہرین نے زیادہ طاقت کے استعمال پر شدید تنقید کی ہے۔ متعدد میڈیا ذرائع، جیسے جیو نیوز اور ڈان نے رپورٹ کیا کہ یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں موجود پولیس اہلکار بھی فائرنگ میں شامل تھے، جو حکومتی دعووں کے برعکس ہے۔
عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا
ویڈیوز آن لائن گردش کر رہی ہیں جس سے عوام میں غصہ بڑھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے پرامن مظاہرین کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں، جس سے ملک بھر میں ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو شفافیت اور جوابدہی کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
کئی حزب اختلاف کے رہنماؤں اور مذہبی علماء نے تشدد کی مذمت کی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں شہریوں نے مظاہرے کر کے انصاف اور جمہوری حقوق کا تحفظ مانگا۔
قانونی اور انسانی حقوق کا منظرنامہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ بغیر ہتھیار والے شہریوں پر براہ راست فائرنگ پاکستان کے قانونی فریم ورک اور انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پنجاب حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ طاقت کے استعمال کو روکے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائے۔
تجزیہ: یہ معاملہ کیوں اہم ہے
ٹی ایل پی احتجاجات اور پولیس کا ردعمل پاکستان میں گہری سیاسی اور نظریاتی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ پرامن مظاہرین پر حملہ عوام کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے اور ریاست کی سیاسی اختلافات کو سنبھالنے کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان بات چیت نہ ہوئی تو ملک میں غیر مستحکم صورتحال بڑھ سکتی ہے۔
نتیجہ: امن اور جوابدہی کی اپیل
ٹی ایل پی احتجاجات کے دوران پرامن مظاہرین پر حملہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ فوری جوابدہی، شفافیت، اور شہری حقوق کا احترام ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ متاثرین کے لیے انصاف یقینی بنائے اور ٹی ایل پی کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرے تاکہ ملک میں امن و استحکام بحال ہو۔ تشدد اور پابندی حل نہیں، جمہوری پاکستان کو شہریوں کی آواز، نظریاتی اصول، اور قانونی احتجاج کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے۔
مزید خبریں اور کوریج کے لیے: Pro Pakistani - تازہ ترین خبریں اور رپورٹس
ماخذ: ڈان, بی بی سی اردو, جیو نیوز, ہیومن رائٹس واچ